اسرائیل کا مستقبل کیا ہے؟

 اسرائیل کا مستقبل کیا ہے؟

فلسطین کی نسبت اسرائیل ایک طاقتور ملک ہے۔ اسرائیل کو ایک اور برتری حاصل ہے کہ اس کو یورپی ممالک اور امریکہ جیسے ملک کی مدد حاصل ہے۔ فلسطین کے لوگ جتنی بھی کوشش کر لیں حقیقت میں دیکھا جائے تو اسرائیل اور اس کی مدد فلسطینیوں کے مستقبل کے خلاف چلی جا رہی ہے۔ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اسرائیل فلسطینیوں کے اوپر مسلسل حاوی نظر آتا ہے۔ اسرائیل کا ایک اور کمال ہے کہ چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود اس نے بہت بڑے بڑے مسلم ممالک کو بھی چپ کرا کے رکھا ہوا ہے۔ اتنے بڑے مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنا اور ان کو خاموش کر کے رکھنا یہ اسرائیل کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

اسرائیل کا مستقبل کیا ہے؟
اسرائیل کا مستقبل کیا ہے؟

 اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے اپنے لوگوں کی خاطر بہت لڑائیاں لڑی ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے اپنے لوگوں کی خوشحالی کے لیے جدید سے جدید طریقے استعمال کیے ہیں۔ اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اسرائیل نے انہیں معاشی معاونت بھی دی ہے اپنے لوگوں کے لیے اس نے مواقع پیدا کیے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس نے اپنے لوگوں کے لیے کام کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اب وہ اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور کسی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہے۔ 56 اسلامی ممالک کو روک کر کے آگے جانا یا ان کو بالکل خاموش کر کے اگے جانا یہ اسرائیل کی بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔ اسرائیل کی اس کامیابی کے باوجود کچھ نکات ایسے ہیں جن کو نظر انداز کرنا بہت ہی بڑی بے وقوفی ہوگی جو کہ اسرائیل اتنی سمجھداری کے باوجود کر رہا ہے۔ 

1۔ پہلی بات یہ ہے کہ اسرائیل جس نظریے کی بنیاد پہ بنا ہے وہ نظریہ مکمل طور پہ مذہبی بنیادوں پہ کھڑا نظر آتا ہے۔ یہودی مذہب کی بنیاد پہ ریاست کا قیام مذہبی لوگوں کا کمال نہیں بلکہ مذہب کو استعمال کرنے والے لوگوں کا کمال ہے۔ اسرائیل ان امیر لوگوں کا ملک ہے جنہیں شدت سے اپنی زمین کی ضرورت تھی۔ یا یوں کہیں اس خطہ میں  ایک ایسا ملک چاہیے تھا جو دور سے ان کے مفاد کی حفاظت کر سکے۔ یورپ اور امریکہ کی ایک خاص ضرورت ہے اسرائیل۔ یہودی مذہب کا استعمال کرنا یہ ان کا ہتھیار تھا۔ کسی بھی وقت مذہبی لوگوں کے شعور کے بعد اسرائیل کے اندر خود بغاوت شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار یہودی جن تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اسرائیل ان کے خلاف جا رہا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق شراب جوا, زنا, قتل کرنا،  یہ سب حرام ہیں لیکن سیکولر اسرائیل میں یہ سب جائز ہے۔قدیمی اور یہودی مذہبی اور معیانہ روی اختیار کرنے والے لوگوں کو جب یہ فرق سمجھ آئے گا ان کو یہ بھی سمجھ آ جائے گا یہودیت کسی کے ہاتھوں استعمال ہوگئی ہے۔ 

2۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر نظریے کی بات کی جائے کہ یہودیوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا تاریخ میں اہل مصر اور اہل  فارس نے ان کے ساتھ زیادتی کی، ان کے ساتھ اہل روم  نے زیادتی کی ان کے ساتھ یورپ میں بالخصوص ہٹلر کی طرف سے بہت زیادہ ظلم ہوا اب ان کو اپنا ایک آزاد وطن چاہیے تھا تاکہ وہ اس ظلم سے نجات حاصل کر سکیں اور سکھ کا سانس لے سکیں، لیکن اب وہی ظلم وہ خود کر رہے ہیں وہی غلطی وہ دہرا رہے ہیں فلسطینیوں کے ساتھ اور دیگر مقامی لوگوں کے ساتھ۔ اس عمل کے لیے وہ اپنے آپ  کو جتنا بھی تسلی دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ  بات ان کے خلاف جائے گی۔ 

3۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے کیونکہ انکی کچھ مذہبی وجو ہات کی وجہ  یہودیوں کی آبادی دوسروں کی نسبت بہت کم ہے جو کہ پوری دنیا پر حکومت کرنے کے لیے کافی بالکل بھی نہیں ہے۔ یہودیوں کے ذہن میں یہ ڈالا گیا ہے کہ یہودی پوری دنیا پر حکومت کریں گے کیسے کریں گے اتنی کم آبادی کے ساتھ یہ سوچ سے باہر ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ان کو قدرت کی طرف سے یہ اشارے ملے ہیں کہ ایک دن وہ پوری دنیا پر حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کی حکومتوں کی طرح حکومت کریں گے تو حکومت ملنے کے بعد ان کے لیے مسائل اور بھی زیادہ ہیں کیونکہ یہ حکومت کب تک چلے گی آخر دوسرے لوگوں نے پھر حاوی ہو جانا ہے۔ اور دوسرے لوگ تعداد میں ہزاروں گنا زیادہ ہیں۔  یہ ممکن ہی نہیں وہ ان سے بدلہ نہ لیں۔

4۔ چوتھی بڑی وجہ یہ ہے مقامی لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ بالکل بھی انصاف پسندانا نہیں ہے۔ اسرائیل کی پالیسی اپنے ہمسایہ ممالک کے حوالے سے بہت سخت گیر ہے۔ فی الوقت اس کی بقا کے لیے یہ ضروری بھی ہے اور وہ اس میں ابھی تک کامیاب بھی ہیں لیکن آخر کب تک؟

5۔ پانچویں بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی مدد  یورپی ممالک کب تک  کریں گے جب حالات تلخ ہوں گے جب ان یورپی ممالک  کے خلاف معاملات جائیں گے وہ ایک نہ ایک دن اپنا ہاتھ ضرور اٹھائیں گے اور جس دن انہوں نے مدد سے انکار کر دیا اسرائیل کے لیے ہر طرف سے مسائل شروع ہو جائیں گے۔

مسائل کا حل : اسرائیل کو چاہیے کہ وہ پر امن ہو کر ہمسایہ ممالک کے ساتھ  تعلقات بہتر رکھے۔ مذہبی اعتبار سے بھی اور علاقائی اعتبار سے بھی  جو کہ آسان  نظرنہیں آرہا ۔ اس کے با وجود عالمی حکومت کے خواب میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔  ٹھیک ہے اس انداز سے  اسرائیل کی بقاء ممکن نہیں تو شدد والے انداز میں تو 100 فیصد  بقاء نظر نہیں آتی۔ اس طرح سلسلہ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا جب تک یورپ اور امریکہ کی مدد چل رہی ہے۔  


Imran Haider

I am Imran Haider CEO of Education Inn System a place where anyone can learn in short time.

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post